جانیں کریمنل (فوجداری) مقدمہ کے مراحل : ایف آئی آر سے فیصلہ مقدمہ تک

 فوجداری مقدمہ کے مراحل

(ایف آئی آر سے فیصلہ مقدمہ تک)


ایف آئی آر 𝐅𝐈𝐑: 

جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو سب سے پہلے پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے اگر وہ جرم قابلِ دست اندازی ہو تو پولیس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 𝟏𝟓𝟒 کے تحت

 𝐅𝐈𝐑 

درج کرتی ہے(قابل دست اندازی جرم وہ ہوتے ہیں ہیں جن میں پولیس کسی بھی ملزم کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتی ہے) ایف آئی آر کا مقصد فوجداری قانون کو حرکت میں لانا ہوتا ہے اگر پولیس ایف آئی آر درج نہ کرے تو پولیس کے

 اس عمل کے خلاف آپ 

𝐃𝐒𝐏 یا 𝐒𝐏

 کو درخواست دے سکتے ہیں۔ اگر پھر بھی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی تو جسٹس آف پیس 

(𝐣𝐮𝐬𝐭𝐢𝐜𝐞 𝐨𝐟 𝐩𝐞𝐚𝐜𝐞) 

کے پاس پٹیشن

 (𝐩𝐞𝐭𝐢𝐭𝐢𝐨𝐧) 

دائر کی جاتی ہے۔ یہ پٹیشن

22A ضابطہ فوجداری کی دفعہ

 اور

 22B

 کے تحت دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس آف پیس کے اختیارات سیشن ججز کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ مطلب کہ یہ درخواست سیشن جج 

(𝐬𝐞𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐣𝐮𝐝𝐠𝐞) 

کے پاس دائر کی جائے گی اور سیشن جج ایس پی سے رپورٹ طلب کرے گا اس کے بعد سیشن جج کو لگے کے اس  واقعہ کی ایف آئی آر درج ہونی چاہیئے تو وہ پولیس کو   آڈر  کرے گا کہ اس وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرے۔

 اس کے علاوہ آپ کے پاس استغاثہ 

(𝐩𝐫𝐢𝐯𝐚𝐭𝐞 𝐜𝐨𝐦𝐩𝐥𝐚𝐢𝐧𝐭) 

کا راستہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کسی بھی جرم (چاہے وہ قابل دست اندازی پولیس ہو یا نہ ہو) کے متعلق علاقہ  مجسٹریٹ کو درخواست دی جا سکتی ہے۔ کہ میرے خلاف فلاں جرم ہوا ہے اس پر کاروائی کی جائے اگر مجسٹریٹ کو لگے تو ملزمان کو طلب کر کے ان کو گرفتار کرنے اور ٹرائل شروع کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے



ضمانت قبل از گرفتاری:

ایف آئی آر درج ہو جانے کے بعد اگر شخص سمجھتا ہے کہ اسے جان بوجھ کر ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے اور وہ بے گناہ ہے تو وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 𝟒𝟗𝟖 کے تحت سیشن کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے درخواست دائر کر سکتا اور گرفتار ہونے سے بچ سکتا ہے۔


تفتیش:

 ایف آئی آر درج ہو جانے کے بعد پولیس دفعہ 𝟏𝟓𝟔 کے تحت اس کے متعلق تفتیش شروع کرتی ہے۔ جائے وقوعہ پر جا کر کر ثبوت اکٹھے کرتی ہے۔ دفعہ 𝟏𝟔𝟏 کے تحت گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ 


ملزمان کی گرفتاری:

پولیس کے پاس اختیار ہے کہ وہ دوران تفتیش قابلِ ضمانت یا ناقابلِ ضمانت کیس میں ملزمان کو گرفتار کرے۔ اس کے علاوہ دفعہ 𝟏𝟔𝟗 کے تحت پولیس کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ملزم کو بے گناہ پا کر چھوڑ بھی سکتی ہے۔

مجسٹریٹ کے سامنے پیشی:

تفتیش کے دوران پولیس 𝟐𝟒 گھنٹوں کے اندر اندر گرفتار شدہ ملزمان کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے کی پابند ہے۔

جب پولیس گرفتار ملزمان کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتی ہے تو اس وقت تک کی گئی تفتیش بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنی ہوتی ہے اور اگر 𝟐𝟒 گھنٹوں میں تفتیش مکمل نہ کی گئی ہو تو ملزم کے جسمانی یا جوڈیشل ریمانڈ کی درخواست دی جاتی ہے اور دوسری جانب مجسٹریٹ کے سامنے پیشی پر ملزم ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے درخواست دیتا ہے۔


ریمانڈ:

ریمانڈ دو طرح کا ہوتا ہے۔ جب پولیس نے ملزم سے کوئی برآمدگی کرنی ہو تو وہ دفعہ 𝟏𝟔𝟕 کے تحت جسمانی ریمانڈ کی درخواست کرتی ہے کہ ملزم کو واپس پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اگر پولیس کو ملزم کی حراست کی ضرورت نہ ہو تو وہ دفعہ دفعہ 𝟑𝟒𝟒 کے تحت ریمانڈ جوڈیشل کی درخواست کرتی ہے۔

ضابطہ فوجداری کی دفعہ 𝟏𝟔𝟕 کے تحت جسمانی ریمانڈ کی زیادہ سے زیادہ میعاد 𝟏𝟓 دن ہے لیکن مجسٹریٹ کبھی بھی 𝟏𝟓 دن کا ریمانڈ ایک ساتھ نہیں دیتا بلکہ دو دو یا چار چار دن کا ریمانڈ جسمانی دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اب اگر دو دن کا ریمانڈ دیا گیا ہو تو پولیس اس شخص کو دو دن کے بعد دوبارہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے گی۔ اس دوران جو بھی تفتیش کی ہوتی ہے وہ مجسٹریٹ کے سامنے رکھے گی اور دوبارہ سے ریمانڈ کے لیے درخواست دے گی۔ اس طرح وقفے وقفے سے مجسٹریٹ ٹوٹل 𝟏𝟓 دن کا جسمانی ریمانڈ پر ملزم کو پولیس کے حوالے کر سکتا ہے لیکن اگر ریمانڈ کی درخواست دیتے وقت مجسٹریٹ کو لگے کہ کہ پولیس نے کوئی خاص تفتیش نہیں کی تو مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ نہیں دیتا بلکہ ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتا ہے۔


ضمانت بعد از گرفتاری:

اب ہم دیکھتے ہیں کہ کہ ایف آئی آر درج ہوگئی ملزم گرفتار ہوا اور ہم نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔ ملزم اب بعد از گرفتاری ضمانت کیلئے درخواست دائر کرسکتا ہے اور اگر عائد کردہ جرم قابل ضمانت ہو تو ضمانت ملزم کا حق ہے۔ ناقابلِ ضمانت جرم میں اگر ملزم بے گناہ ہو اور اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو اور مزید تفتیش کی ضرورت ہو تو بھی ملزم کو ضمانت مل سکتی ہے۔


چالان (𝐏𝐨𝐥𝐢𝐜𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐨𝐫𝐭):

 اب اگلا مرحلہ چالان جمع کروانے کا ہوتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 𝟏𝟕𝟑 ایف آئی آر درج ہونے کے بعد  𝟏𝟒 دن کے اندر اندر  مجسٹریٹ کے پاس چالان جمع کروانا ہوتا ہے اگر 𝟏𝟒 دنوں میں پولیس نے چالان جمع نہیں کرایا تو تین دن کے اندر عبوری چالان جمع کرائے گی۔ مطلب کہ پولیس کے پاس چالان جمع کرانے کے لیے 𝟏𝟒+𝟑 دن کا وقت ہوتا ہے اس دورانیہ میں پولیس نے ہر حال میں مکمل یا نامکمل چالان جمع کرانا ہوتا ہے ( نامکمل چالان اس صورت میں جمع ہوتا ہے جب تفتیش مکمل یا کوئی فرانزک کروانا ہے کسی مال مقدمہ کا وہ رپورٹ تیار نہیں ہوئی ہوتی اور اس کے آنے میں ابھی وقت ہوتا ہے) تاکہ جتنے بھی ثبوت اکٹھے ہوئے ہیں جتنی بھی تفتیش ہوئی ہے اس کی بنیاد پر عدالت ٹرائل چلا سکے لیکن عدالت کا اختیار ہے کہ وہ مکمل چالان کے بعد  بھی ٹرائل شروع کر سکتی ہے اور نامکمل چالان پر بھی. 


چالان کے کالم:

چالان کے 𝟕  کالمز ہوتے ہیں۔ پولیس نے ابھی تک جتنی بھی کارروائی کی ہوتی ہے اس چالان فارم پر  لکھتی ہے۔

 پہلے کالم میں نام و پتہ مستغیث درج ہوتا ہے 

دوسرا کالم اشتہاری ملزمان کا ہوتا ہے

تیسرے کالم میں زیر حراست ملزمان کے کوائف درج ہوتے ہیں چوتھا کالم ان ملزمان کے متعلق ہوتا ہے جو ضمانت پر رہا ہوتے ہیں

پانچویں کالم میں مال مقدمہ کی تفصیل درج ہوتی ہے مثلاً ملزمان سے کوئی ہتھیار یا چرس برآمد ہوئی ہو تو اس کا ذکر ہوتا ہے

چھٹے کالم میں استغاثہ کے گواہان کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ ساتویں کالم میں پوری تفتیش کا خلاصہ لکھا ہوتا ہے۔

چالان کے ساتھ مختلف ڈاکومنٹ بھی لف ہوتے ہیں جن میں ایف آئی آر کی کاپی، میڈیکل رپورٹ، فرد مقبوضگی اور نقشہ موقع شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مستغیث اور گواہان کے بیانات جو کہ پولیس نے 𝟏𝟔𝟏 کے تحت ریکارڈ کیے ہوں شامل ہوتے ہیں۔ 


مجسٹریٹ کے پاس چالان جمع ہونے پر اگر مجسٹریٹ کو لگے کہ وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 𝟏𝟗𝟎 کے مطابق اس کیس کے ٹرائل کا اختیار رکھتا ہے تو ٹرائل شروع کرتا ہے اور اگر اسے لگے اس کیس میں ٹرائل شروع کرنے کا اختیار سیشن کورٹ کے پاس ہے تو وہ اس کیس کو سیشن جج کے پاس بھیج دیتا ہے۔ ضابطہ فوجداری میں دونوں عدالتوں کے ٹرائل کی الگ الگ وضاحت کی گئی ہے۔ لیکن یہاں ہم ٹرائل کو عام نقظہ نظر سے دیکھیں گے۔


ملزم کو دستاویزات کی فراہمی:

اگر تو ملزمان ضمانت پر رہا ہیں تو پولیس کے ذریعے انہیں بلایا جائے گا اگر تو وہ جیل میں ہیں تو بذریعہ جیل سپرانٹنڈنٹ انہیں بلایا جائے گا۔ جب ملزمان حاضر ہو جاتے ہیں تو چالان، گواہوں کے بیان اور جو بھی متعلقہ ڈاکومنٹ چالان کے ساتھ لف ہوتا ہے ان سب کی کاپیاں بغیر معاوضہ کے انھیں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ ڈاکومنٹس فرد جرم عائد ہونے سے کم از کم 𝟕 دن پہلے دینا لازم ہے تاکہ ملزم کو پتہ چل سکے کہ اس کے خلاف کیا کیس ہے اور کیا کیا ثبوت اکٹھے ہو چکے ہیں۔ 


ٹرائل کا آغاز:

اب ٹرائل کا مرحلہ آتا ہے۔ ٹرائل کا آغاز ملزم پر فرد جرم عائد کرنے سے ہوتا ہے۔ عدالت ملزم کو بتاتی ہے تمہارے اوپر یہ الزام ہے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ اقبال جرم کرتا ہے یا جوابدہی کرے گا۔ ٹرائل کے دوران اگر تو ملزم اقبال جرم کر لے تو عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو سزا سنا دے۔ لیکن اگر عدالت کو لگے کہ وہ جھوٹا اعترافی بیان دے رہا ہے تو عدالت اس کے بیان کو رد بھی کر سکتی ہے۔

اگر ملزم اعترافی بیان نہیں دیتا تو پھر باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوتا  ہے .سب سے پہلے پراسکیوشن 

(𝐩𝐫𝐨𝐬𝐞𝐜𝐮𝐭𝐢𝐨𝐧)

 کے گواہوں کے بیان ریکارڈ سے ہوتے ہیں اور ملزم کا وکیل ان پر جرح کرتا ہے۔ پرازیکیوشن کے پاس دو طرح کے گواہ ہوتے ہیں ایک تو پرائیویٹ گواہ ہوتے ہیں جو کہ مستغیث کے گواہ ہوتے ہیں مثلاً کہ چشم دید گواہ وغیرہ۔ دوسرے پولیس کے گواہ ہوتے ہیں جیسا کہ ایف آئی آر درج کرنے والا پولیس افسر۔ 

جب پرازیکیوشن کے گواہان کے بیانات ریکارڈ ہو جاتے ہیں اس کے بعد ملزم کا 𝟑𝟒𝟐 کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ جو کہ ہر حال میں لازم ہے۔ ملزم سے مختلف سوال پوچھے جاتے ہیں مثلاً اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے خلاف یہ کیس کیوں بنایا گیا ہے یہ گواہ آپ کے خلاف گواہی کیوں دے رہے ہیں۔ ملزم ان سوالوں کا عموماً یہ ہی جواب دیتا ہے کہ میرے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور میں بے گناہ ہوں۔ اس کے علاوہ ملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنی صفائی میں کوئی ڈاکومنٹ یا کوئی گواہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ان سوالوں میں ایک سوال یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے حق میں گواہی دینا چاہتا ہے اگر وہ کہے کہ میں اپنا گواہ بنتا ہوں تو 𝟑𝟒𝟎 کے تحت وہ حلف اٹھا کر اپنے ہی گواہ کے طور پر پیش ہوتا ہے اور بیان دیتا ہے اور پرازیکیوشن اس پر جرح کرتی ہے۔ لیکن عام طور پر ملزمان 𝟑𝟒𝟎 کے تحت اپنا ہی گواہ نہیں بنتے اور نہ ہی اپنے حق میں کوئی گواہ پیش کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنا ہی گواہ خود بنے یا اپنے حق میں کوئی اور گواہ پیش کرے تو مخالف وکیل کو اس پر اور اس کے گواہ پر جرح کا حق ہوگا اور اس جرح میں ملزم پھنس سکتا ہے۔


بحث:

اب اگلا مرحلہ آرگومنٹ کا آتا ہے دونوں اطراف سے دونوں پارٹیز کے وکیل بحث کرتے ہیں۔


فیصلہ:

عدالت کیس کے متعلق فیصلہ سناتی ہے۔ فیصلہ کے لیے ضروری ہے کہ جج پہلے اسے لکھے اور پھر اس فیصلے کو عدالت میں سنائے۔ فیصلہ میں مجرم کو بری کر دیا جاتا ہے یا سزا سنائی جاتی ہے۔ اگر تو فیصلہ اس کی سزا کا ہے تو ملزم کو اپیل دائر کرنے کے لیے اس فیصلہ کی ایک نقل بلا اجرت دی جاتی ہے۔




Post a Comment

0 Comments