کورٹ میرج کیا ہے کیسے کی جاتی ہے؟ کورٹ میرج اور عام شادی میں کیا فرق ہے؟
سب سے پہلے یاد رکھیں کسی عورت کی زبردستی شادی کروانا تعزیرات پاکستان کی دفعہ
498B
کے تحت جرم ہے جسکی سزا 10 سال تک ہوسکتی ہے
کورٹ میرج اور سادہ میرج میں فرق؟
کورٹ میرج اور عام میرج میں فرق صرف اتنا ہے کے عام حالات میں لڑکا لڑکی کا نکاح گھر میں ہوتا ہے یا ہال میں
جبکہ
کورٹ میرج میں نکاح عدالت میں ہوتا ہے کسی وکیل کے چیمبر میں.
کورٹ میرج کیسے ہوتی ہے؟
کورٹ میرج اکثر و بیشتر ان کیسز میں ہوتی ہے جن میں لڑکا لڑکی گھر والوں سے چھپ کر بھاگ کر شادی کرتے ہیں.
لڑکا لڑکی عدالت آتے ہیں وہاں کسی وکیل سے رابطہ کرتے ہیں جو نکاح رجسٹرار کو بلا لیتا ہے.
جس کے پاس نکاح کا رجسٹر ہوتا ہے
اک بات یاد رہے قانون میں یہ ضروری نہیں نکاح خواہ صرف مولوی ہوگا اور نکاح رجسٹر صرف مولوی کو ہی ملے گا.
قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو متعلقہ ڈی سی نکاح رجسٹر جاری کرسکتا ہے
اب آتے ہیں موضوع کی جانب تو وکیل صاحب کسی نکاح خواہ کو بلا کر لڑکا لڑکی کا نکاح کروا دیتا ہے. نکاح کے لیے لڑکا لڑکی کی عمر 18 سال ہونا لازمی ہے. انکا شناخی کارڈ ہو اگر شناختی کارڈ نہیں ہے تو بے فارم یا تعلیمی اسناد ہوں جس سے عمر کا تعین ہوسکے
نکاح کے بعد وہی نکاح خواہ متعلقہ یونین کونسل سے نکاح رجسٹرڈ بھی کروا دیتا ہے.
یوں کورٹ میرج پوری ہو جاتی ہے.
کورٹ میرج سے جڑے مسائل؟
پسند کی شادی میں ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کے گھر والے لڑکے پر 365 ب کے تحت اغوا کی ایف آئی آر کروا دیتے ہیں.
اس صورتحال میں لڑکے کو چاہیے
فوراً لڑکی کا 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے کروائے جس میں لڑکی لڑکے کے حق میں بیان دے
ساتھ ہی لڑکے کو چاہیے وہ ضمانت قبل از گرفتاری کروائے
اور ہائی کورٹ میں
Quashment Of FiR
کے لیے رجوع کرے.
بطور ثبوت نکاح نامہ، لڑکی کے 164 کے بیان پیش کرے.
یوں لڑکے کی جان بڑی حد تک چھوٹ جائے گی.
اگر لڑکا یہ نہیں کرتا اور لڑکی بعد میں گھر والوں کے دباؤ میں آکر لڑکے کے خلاف بیان دے دے تو لڑکا
365B
کے تحت کئ سال کے لیے جیل جا سکتا ہے
اخلاقی نقطہ نظر ہمارے معاشرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے؟
اوپر کی گئ باتیں تو قانون کے حوالے سے تھیں.
اگر ہمارے معاشرے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو لڑکی کا اپنے گھر سے بھاگ کر شادی کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے.
گھر والوں کے لیے ذلت کا باعث بنتا ہے.
ایسا قدم اٹھانے سے پہلے لڑکے اور خصوصاً لڑکی کو ہزار بار سوچنا چاہیے.
اس کے ساتھ ہی والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی شادی کرتے وقت بچوں کی مرضی رضامندی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں.
اسلام میں اولاد کی شادی کے لیے رضامندی لینا لازمی ہے.
ہم اس شخص کے ساتھ اک گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے جو ہمیں پسند نہ ہو تو زندگی کا سفر کے لیے ہم کیسے غیر پسندیدہ شخص کا انتخاب کرسکتے ہیں.
بدقسمتی ہوتا یہ ہے کہ والدین بغیر بتائے بغیر پوچھے رشتہ کر دیتے ہیں جس سے بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں.
اگر لڑکا یا لڑکی کو برادری سے باہر شادی کا کہہ دیں تو گھر میں طوفان کھڑا ہوجاتا ہے.
بدقسمتی سے یہ سوچ بن گئ ہے خاندان کے ویلے نکمے سے شادی کر دیں گے لیکن باہر کے پڑھے لکھے سلجھے ہوئے سے شادی نہیں کریں گے.
ایسی سوچ کو ہمیں ختم کرنا ہوگا
یاد رکھیں اسلام میں نکاح کے لیے کوئی ذات پات برادری کا کوئی تصور نہیں ہے.
اولاد کی بھی ذمہ داری ہے جذباتی فیصلے کے بجائے صبر و تدبر سے کام لیں.
Post a Comment
0 Comments