قانون میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے اختیارات کیا ہیں؟ ان میں آفسر شاہی رویے کی وجہ اور اسے ختم کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

 سب سے پہلے جان لیں کوئی بھی سرکاری ملازم ہے وہ اپنے ہائیر آفیسرز، عدالت سے ہٹ کر اک عام شہری کو بھی جوابدہ ہے

اس کی وجہ اس ملازم اس آفیسر کی تنخواہ آپکے میرے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کی جاتی ہے اسی لیے انکو سول سرونٹ بھی کہا جاتا ہے 





سول سرونٹ کی اصطلاح؟

وہ سرکاری محکمے جن کا ڈائریکٹ تعلق عوام سے ہو جیسا

کہ پولیس، ریونیو واپڈا اور دیگر محکمہ جات کے ملازمین ان کے لیے سول سرونٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے مطلب عوام کا ملازم

اے سی، ڈی سی کا شمار بھی سول سرونٹ میں ہی ہوتا ہے

ڈی ایم جی DMG

کا مطلب کیا ہے؟ 

اس کا مطلب ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ دیگر الفاظ میں اس کو

ضلعی انتظامیہ بھی کہا جاتا ہے

ڈی سی اے سی تحصیل کونسل سب اسی 

DMG  

گروپ میں آتے ہیں 

  Ac   DC

کابنیادی کام کیا ہے؟

اے سی ڈی سی کا بنیادی کام

لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 میں بیان ہوا ہے

ان آفیسرز کا بنیادی کام ریونیو معاملات کو ڈیل کرنا ہے مطلب ٹیکس اکٹھا کرنا سرکاری زرعی زمینوں سے

اس کے علاوہ زرعی زمین کی تقسیم، حدود بندی ٹیکس کے معاملات میں بطور ریونیو جج کے بھی کام کرتے ہیں

ریونیو میں انکی تقسیم مندرجہ ذیل ہے

سب سے ہائیر بڑی اتھارٹی

بورڈ آف ریونیو کہلاتی ہے

اس کے بعد بلترتیب

کمشنر آتا ہے جو پوری ڈویژن کا ہوتا ہے 

پھر ڈی سی

اے سی

تحصیلدار

زرعی زمین سے متعلق کیس بھی اسی ترتیب سے چلتے ہیں

پہلے تحصیلدار پھر اے سی اور آخر میں بورڈ آف ریونیو کو اپیل کی جاتی ہے

ریونیو معاملات سے ہٹ کر اے سی ڈی سی کے اختیارات اتنے زیادہ ہونے کی وجہ؟

ڈی سی کے پاس جتنے اختیارات ہیں اس اختیارات کی وجہ سے اس کو ضلع کا بادشاہ کہا جاتا ہے پھر وہ رہتا بھی بادشاہوں کی ہی طرح ہے بادشاہ سلامت سے کوئی عام شخص مل تک نہیں سکتا اپنے مسائل کا حل کروانا تو دور کی بات ہے

اب آتے ہیں یہ لوگ یوں بادشاہ کیوں بنے کس وجہ سے انکے پاس اتنے اختیارات ہیں 

تو  یاد رہے 

 آئین پاکستان کے آرٹیکل 32 میں واضح کہا گیا ہے گورنمنٹ ملک میں بلدیاتی نظام کو نافذ کرے گی

لیکن گورنمنٹ نے کبھی بھی بلدیاتی نظام کو صیح معنوں میں نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے ڈی سی اے سی کے پاس بے پناہ اختیارات ہوگئے

بلدیاتی نظام میں گاؤں گلی محلوں کے مسائل کا حل انکے گھر دہلیز پر ہی ممکن ہوتا ہے عوامی نمائندوں کے ذریعے سے جبکہ یہ نظام نہ ہونے کے باعث اک محلے کی سیوریج کا مسئلہ بھی حل کروانے کے لیے ڈی سی سے رابطہ کرنا پڑتا ہے فنڈز اس کے پاس ہوتے ہیں

جب تک بلدیاتی نظام کو صیح معنوں میں بحال نہیں کیا جاتا تب تک یہ ڈی سی اے سی ایم این ایز اسی طرح بادشاہ سلامت بن کر رہیں گے

عوام کو کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟

ہم عام عوام کو تو سب سے پہلے اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا پڑے گی جہاں کہیں بھی ہمارے حقوق کی پامالی ہو رہی ہو وہاں ہمیں بولنا ہوگا چاہے سامنے ڈی سی ہے یا ڈی ایس پی

ہماری خاموشی بھی ان آفیسرز کو ہمت دیتی ہے کہ وہ ہمارے ہر ناجائز کام کرتے رہیں 

تو سب سے پہلے

اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا سیکھیں

کوئی آفیسرز غلط کام کر رہا ہے تو اس کو روکیں اسکی شکایت کریں ہائیر آفیسرز کو اگر وہ نہیں سنتے تو وفاقی محتسب پر رابطہ کریں یا عدالت سے رجوع کریں

اس کے ساتھ 

بلدیاتی نظام کی بحالی کے لئے جدوجہد کریں مطالبہ کریں گورنمنٹ سے

اس شعر کے ساتھ اختتام کرتا ہوں

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا





Post a Comment

3 Comments