جنسی ہراساں: نوکری کرنے والی خواتین کو دفاتر میں یا کسی بھی جگہ جنسی ہراساں کیا جاتا ہے تو خاتون کیا کرے؟ کیسے مجرمان کو سزا دلوائے؟
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے
بازاروں میں، پبلک ٹرانسپورٹ میں آفسز میں غرض کے ہر جگہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے ہیں
اسکی روک تھام کے لئے گورنمنٹ نے مختلف قوانین بنائے
اسی طرح اک قانون نوکری کرنے والی خواتین کو جنسی ہراسگی سے بچانے اور متاثرہ خاتون کو فوری انصاف پہنچانے کے لیے
اک قانون بنایا گیا جس کو
The Protection Against Harassment of Women At the workplace Act 2010
نام دیا گیا
یہ قانون بنانے کا مقصد؟
اک خاتون جو اپنے گھر سے اس وجہ سے نکلتی ہے کہ اپنا اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے دو پیسے حلال رزق کے کما سکے لیکن جب کام والی جگہ انکی عزت پر حملے ہوں انکی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے تو اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا
اب ہوتا یہ ہے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو ان کے سینئرز کی جانب ان کے باس کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے متعدد واقعات پیش آتے رہیں ہیں
جسکی روک تھام کے لئے قانون یہ ایکٹ بنایا
جنسی ہراسگی ہے کیا؟
اک قانون کے تحت اگر کوئی شخص کسی خاتون سے غلط بات کرے غلط حرکت کرے کسی خاتون کو مجبور کرے وہ اس کو جنسی طور پر فائدہ پہنچائے
عورت کو کسی قسم کا فائدہ پہنچانے کا وعدہ کرے جنسی آسودگی کے عوض یا
اس خاتون کو
indirect
طریقے سے تنگ کرے اگر وہ اس شخص کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے سے انکار کردے
یہ تمام چیزیں جنسی ہراسگی میں شامل ہونگی
اس ایکٹ کے تحت کیسے نوکری کرنے والی خواتین کو تحفظ فراہم کیا گیا؟
اس ایکٹ کے تحت دفاتر کمپنی میں انکوائری کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد خواتین ملازمین کی جانب سے ملنے والی ہراسگی کی شکایت کا فوراً ازالہ کرنا ہے
اس ایکٹ کے تحت شکایت موصول ہونے پر انکوائری کمیٹی ہراساں کرنے والے ملازم کو بلائے گی
اس سے اس کا موقف سنا جائے گا
اگر انکوائری کمیٹی میں ثابت ہو جائے کہ فلاں ملازم کی جانب سے خاتون ملازم کو ہراساں کیا گیا ہے تو کمیٹی اس ملازم کو نوکری سے بے دخل تک کرسکتی ہے
انکوائری کمیٹی کے علاوہ متاثرہ خاتون وفاقی محتسب میں بھی شکایت کرسکتی ہے
وفاقی محتسب میں سرکاری و نجی ملازمین کے خلاف شکایت سنی جاتی ہیں.
انکوائری کمیٹی اور وفاقی محتسب میں شکایت کرنے کے علاوہ متاثرہ خاتون پولیس ایف آئی آر بھی کروا سکتی ہے
تعزیرات پاکستان کے سیکشن 509 کے تحت
دفاتر کے علاوہ اگر خواتین کو باہر کہیں کسی کی بھی جانب سے ہراساں کیا جائے تو سزا کیا ہے؟
1
اگر کوئی شخص کسی عورت کے کپڑے اتارے یا اسکی خاتون کی غیر اخلاقی فوٹو انٹرنیٹ پر لگاتا ہے تو ایسے شخص کے خلاف خاتون فوراً ایف آئی آر درج کروائے
اس جرم میں اس شخص کو عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے
تعزیرات پاکستان کے سیکشن 354A کے I'm
2
اس کے علاوہ کسی پبلک مقام پر
کسی بس میں یا کسی بھی جگہ کوئی شخص کسی عورت پر نازیبا الفاظ کستا ہے اس کو جسمانی طور پر ہراساں کرتا ہے یا کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سے عورت جنسی ہراسگی ہو
تو ایسے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے
اور اس شخص کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 509 کے تحت 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے
اس سیکشن کے تحت جیسا کے ہم نے اوپر ذکر کیا دفاتر کمپنی فیکٹری یا کسی بھی جگہ کام کرنے والی خاتون اس سیکشن کے تحت ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کروا سکتی ہے
3
کسی خاتون پر زنا کا جھوٹا الزام لگانا بھی جرم ہے
کوئی شخص ایسا الزام کسی خاتون پر لگاتا ہے تو اس کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 496C کے تحت 5 سال قید ہوسکتی ہے
4
اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی 18 سال کم عمر لڑکی کو بدکاری کے لیے اکساتا ہے تو ایسے شخص کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 366A کے تحت 10 سال قید ہوگی
تو معزز قارئین یہ مختلف قوانین ہیں جن کے تحت خواتین کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے
اس کے علاوہ ہمیں
اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کے اندر اتنی ہمت اور حوصلہ پیدا کرنا ہوگا کہ وہ ایسی صورتحال میں خاموش مت رہیں بلکہ اس کا ذکر گھر والوں سے کریں ہراساں کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرے
قانونی مشورے
لا گیٹ نوٹس و دیگر ایل ایل بی نوٹس حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں
0300 6471170
Post a Comment
0 Comments