پولیس نے ہمارے فلاں بندے کو اٹھا لیا ہے۔ اسے نہ چھوڑ رہے ہیں نہ ایف آئی آر درج کر رہے ہیں۔ کیا کریں؟

پولیس نے ہمارے فلاں بندے کو اٹھا لیا ہے۔ اسے چھوڑ رہے ہیں نہ ایف آئی آر درج کر رہے ہیں۔ کیا کریں؟

ایسے کیسز اکثر آتے ہیں جن میں پولیس، سی آئی اے، سی ٹی ڈی وغیرہ نے بندہ اٹھایا ہوتا ہے لیکن اس کی گرفتاری نہیں ڈالی ہوتی۔ یہ غیر قانونی تحویل ہوتی ہے۔ جسے اغوا بھی کہا جا سکتا ہے۔ فوجداری پریکٹس کرنے والے کسی بھی وکیل کے پاس ایسا کوئی کیس آتا ہے تو وہ مشورہ دیتا ہے کہ فوری حبس بے جا کی پٹیشن دائر کرو۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 491 سیشن و ہائیکورٹ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ متعلقہ اشخاص (آئی جی، ڈی آئی جی، ایس پی، ایس ایچ او وغیرہ) کو بلا کر ان سے پوچھیں کہ بندہ کہاں ہے۔



پولیس کی ذمہ داری کیا ہے؟ 

پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے 24 گھنٹے کے اندر اسے متعلقہ جج کے سامنے پیش کر کے اس کا ریمانڈ لے یا اسے جوڈیشل کروائے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ گرفتار شخص کے ورثا اور عدالت کا پتہ ہو کہ جس بندے کو گرفتار کیا گیا ہے وہ اصل میں ہے کہاں۔ 24 گھنٹے سے زیادہ گرفتار کر کے رکھنا اور ایف آئی آر درج نہ کرنا اغوا اور حبس بے جا کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کے کیسز میں پولیس والے ورثا کو کہتے ہیں کہ کسی وکیل یا عدالت سے رجوع نہ کرنا۔ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔

گرفتار شخص کے ورثا کو اس صورتحال میں سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ 

  اس موقع پر گرفتار شخص کے ورثا کی جانب سے فوری عدالت سے رجوع نہ کرنا گرفتار شخص کو بہت نقصان دیتا ہے۔ ہم وکیل حبس بے جا کا کیس کر کے پولیس کو مجبور کرتے ہیں کہ اس غیر قانونی گرفتاری کو ختم کریں۔ اسے رہا کریں یا قانون کے مطابق گرفتاری ڈالیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ پولیس کئی دن اس شخص کو گرفتار رکھنے کے بعد ایف آئی آر درج کرتی ہے تو ورثا عدالت میں یہ مدعا اٹھاتے ہیں کہ پولیس نے اسے ایک مہینے سے گرفتار کیا ہوا تھا ایف آئی آر اب درج کی۔ عدالت کا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کسی بھی مقدمے کے بغیر ایک مہینے سے گرفتار تھا تو تم نے کسی فورم سے رجوع کیا؟ کوئی حبس بے جا کی پٹیشن یا گمشدگی کی رپورٹ، اغوا کی ایف آئی ار؟ ایسی کسی چیز کا موجود نہ ہونا الٹا ملزم کے کیس کو کمزور کرتا ہے۔

ایسی کسی بھی گرفتاری، جبری گمشدگی وغیرہ کا سامنا ہو تو ذرا بھی تاخیر کیے بغیر عدالت میں 491 کی پٹیشن دائر کریں۔ یہ پٹیشن آگے چل کر آپ کے بندے کو فائدہ دے گی چاہے اس پر بعد میں جو بھی کیس ڈالا جائے۔

تحریر طاہر چودھری ایڈووکیٹ صاحب



Post a Comment

0 Comments